مَاںٌ کِی عظمَت
“شروع کرتا ہوں ﷲ تعالٰی کے بابرکت نام سے جو دِلوّں کے بھید خوب جانتا ہے” –
ماں کو جب دیکھا تو زبان سے بے ساختہ منہ سے جاری ہوا_فَباَیّ اِلٓا رَبّکُماَ تُکذِباَنَ ¶
بیشک ہر ذی روح اس نعمت اور اس چیز سے با خوبی واقف ہے۔ اور اس نعمت کےثمرات سے خوب آگاہی وشناسی رکھتا ہے۔ چونکہ اس مقدس رشتے کی عظمت لفظوں میں بیان کرنا تو بالکل نا ممکن ہے۔ مگر ہاں مقدس رشتے کی کچھ نا کچھ ا ب کے وضاحت کرنے کوشش تو کی جا سکتی ہے۔انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ﷲ تعالٰی تین چیزیں اس انسان کے لیے لِکھ دیتا ہے۔
١)قسمت
٢)رزق
٣)سعید(خوش بخت) یا شکی (بد بخت)
ہمارے معاشرے میں جب بھی کسی خاندان میں بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ تو والدین غمزدہ ہو جاتی ہیں۔ اور اشک آنکھوں میں آ جاتے ہیں حالانکہ کہ ہمارے مذہب میں تو گویا یوں فرمایا گیا ہے ۔کہ جبﷲ تعالیٰ اپنے بندے پہ حد درجہ خوش ہوتا ہے تو باعثِ مسرت اسے بیٹی کی صورت میں اپنی رحمت کا تحفہ عطا فرماتا ہے۔تو بچی کی پیدائش پہ غمگین یا مایوس ہونے کی ایک واضع وجہ یہ ہے۔ کہ وہ اپنی بیٹی کے مقدر قسمت یا تقدیر سے ڈرتے ہیں۔
چونکہ وہ اس بات سے پریشان ہوتے کہ جانے بیٹی کا نصیب کیسا ہوگا، وہ کہاں پلے بڑھے گی، کہاں بیاہ کے جائے گی، سسرال والے کیسے ہونگے وغیرہ وغیرہ سو بیٹی سفر کرتے کرتے بیٹی سے بیوی اور بیوی سے ماں تک کا سفر یوں طے کر جاتی ہے ۔جیسے کل کی بات ہو چونکہ وہ ماں جیسے مقدس اور عظیم رشتے تک پہنج جاتی ہے۔ اور یہی سے ماں کا درجہ اسے عرشِ معلیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ماں کی عظمت کا اندازہ ہم پاک پیغمبر کے اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں ۔جب نبی کریم ص اپنے صحابہ کرام کے ساتھ محو گفتگو ہیں کہ اچانک آپ ص کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی چادر (کالی کملی) نیچے بچھا دیتے ہیں اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تو صحابہ کرام حیران ہوکر دریافت کرتے ہیں۔ کہ یا رسول ﷲ آپ پہ ہماری جان نثار یہ ماجرا کیا ہے تو آپ ص نے فرمایا کہ رفیقو میری ماں آ رہی ہر اور میں حالتِ نماز میں ہوتا اور میری ماں مجھے بلاتی کہ محمد ص تو بخدا میں نماز چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوتا، یہ تھی ہمارے نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم کے نزدیک مان کی شان۔والدین کے گستاج کی دنیا و آخرت دونوں خسارے میں ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام امروز کوہ طّور پر ﷲ تعالٰی سے ہمکلام ہوتے تھے ایک روز جبریل امین کے ذریعے ﷲ تعالٰی نے پیغام بھیجا کہ موسیٰ علیہ السلام سے کہو کہ اب زرا سنبھل کر آئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت پریشان ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ایسا کیوں؟
تو ﷲ تعالٰی کی طرف سے جواب ملا کہ پہلے تمھاری ماں حیات تھی ۔ان کی دعا سے ہر چیز تم سے دور اور قابو میں رہتی تھی ۔لہذا اب تمھارے لیے میرے نور کی جھلک برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ بیشک ماں زمین کے خدا کا درجہ رکھتی ہے۔جب ہم اپنے والدین کو پیار سے دیکھتے ہیں تو ہمیں حج مبرور جتنا ثواب ملتا ہے ۔اور خدا کے نزدیک درجات کی کی بلندی بھی ایسے ہی ہوتی ہے، کوئی بھی ولّی ماں کی فرمانبرداری کے علاوہ نہیں بنا تو نتیجتاً ہم یہ کہ سکتے کہ مان کی خدمت ولّیِ کامل بنا دیتی ہے۔مان کی عظمت بیان کرنے کے لیے میرے پاس لاکھوں الفاظ و جملات کا ذخیرہ ہے ۔مگر بھر بھی میں اپنا مقصد پورا کرنے سے قاصر رہوں گا۔گزشتہ ماہ میری والدہ محترمہ ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں وصال فرما گئیں اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ان کا دکھ و صدمہ اس قدر بھاری تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے دنیا ہی اجڑ گئ ہو، خدا روٹھ گیا ہو مگر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں یہ تو خدا کی مرضی ہے، جیسے قبول کرنا ہوتا ہے۔مان کی جدائی کی وجہ سے کافی اضطراب میں تھا-انسان جب بہت زیادہ اداس ہو تو اس کی نظر میں کوئی شخص ایسا ہوتا ہے۔ جس سے وہ اپنی بے چینی اداسی بتا کر راحت محسوس کرتا ہے گویا گم سم بیٹھا موبائل اٹھایا اور اپنے استادِمحترم ڈاکٹر ناصرمحمود صاحب (سربراہ شعبہ ریاضی پیر مہر علی شاہ ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی بوریوالہ کیمپس، نوٹ:میں نے بھی اسی یونیورسٹی سے ایم ایس سی ریاضی کی ڈگری حاصل کی تھی) کو میسج بھیجا اور اپنی کیفیت گوشگزار کی، تو سر نے بارہا فرمایا کہ ایک دفعہ یونیورسٹی مجھے آکے ملو، گویا میں نے اپنے دوست پروفیسر مظفر حسین مہار کو ساتھ لیا، اور یونیورسٹی پہنچ گئے تو حسبِ وعدہ ڈاکٹر ناصرمحمود صاحب اور سر طارق صاحب انتظار کر رہے تھے، ملاقات ہوئی گفت و شنید ہوئی سر ناصر صاحب نے ایک پتے کی بات بتائی کہ بیٹا نا تو ہم اپنی مرضی سے دنیا میں آئے ہیں، اور نا ہی اپنی مرضی سے جا سکتے ہیں ۔بیشک زندگی موت کی امانت ہے۔
میں نے اپنی ماں سے جدائی کے باعث ایک شعر لکھنے کی کوشش کی ہے احباب کی نظر__
سینے سے لگایا تھا آنکھوں پہ بٹھایا تھا!!
معلوم نہ تھا آپ نے یوں چھوڑ کے جانا تھا!!
کیوں بھول گئیں مجھ کو، رشتہ تو پرانا تھا!!
ایک یہ بھی زمانہ ہے، ایک وہ بھی زمانہ تھا!!
دعا ہے کہ ﷲ تعالٰی ہم سب کو اپنے والدین کی خدمت کرنے کا اور فرمانبردار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین