بھارت کو افغانستان میں ذلت اور رسوائی اٹھانی پڑی، فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارا گہرا سٹریٹجک،سیاسی، سماجی اور معاشی تعلق ہے۔ بھارت کو افغانستان میں ذلت اور رسوائی اٹھانی پڑی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی سے ان کے بھائی کے انتقال پر اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ بھارت نے حریت رہنما سید علی گیلانی کی میت کی جو بے حرمتی کی اس کی وزیراعظم عمران خان نے شدید مذمت کی ہے۔ ایک 92 سال کا کشمیری مجاہد موت کے بعد آزادی اورحریت کی علامت ہے۔ بھارت اتنا خوفزدہ ہے کہ وہ اس کی عوامی جنازہ کی اجازت دینے سے بھی ڈر رہا ہے۔ نریندر مودی جو ہٹلر سے متاثر ہے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور ایک میت کو اس کے خاندان کے حوالے نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کا استعارہ ہیں۔ بھارت سامراج جو ایک دہشتگرد فلاسفی رکھنے والی جماعت اور دہشگردی کی سرپرستی کرنے والا لیڈر جو بھارت پر مسلط ہے جس کا نام نریندر مودی ہے وہ اتنا بزدل ہے کہ وہ آزادی کے ایک استعارہ کو برداشت نہیں کر سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ہم کشمیر کے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہم سیسہ پلائی دیوار کی طرح آپ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر کے لئے تین جنگیں لڑی ہیں۔ ہمارے قبرستان ان شہیدوں سے آباد ہیں جنہوں نے کشمیر کے لئے اپنا لہو دیا ہے۔ کشمیر کی سات دہائیوں پر محیط جدوجہد ہے جسے ہم سلام پیش کرتے ہیں اور ہم اس کا عملی حصہ بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جو صورتحال ہے اس میں خصوصاً بھارتی میڈیا پر حیران ہوں۔ پاکستان کے آئی ایس آئی چیف نے کابل کا دورہ کیا، اس پر بہت بات ہو رہی ہے۔ کیا اس سے قبل امریکہ کی سی آئی اے چیف وہاں نہیں گئے، ترکی اور قطر کے انٹیلی جنس چیف نے کابل کا دورہ نہیں کیا؟
وفاقی وزیر نے کہا کہ پوری دنیا کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی ورکنگ ہوتی ہے۔ علاقے میں تعلقات اور سیاست کو دیکھنا ہوتا ہے۔ افغانستان میں جو ہوتا ہے اس کے پاکستان میں بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں، وہاں سے اگر ہجرت ہوتی ہے تو سب سے زیادہ اثرات پاکستان پر پڑتے ہیں، وہاں اگر سیاسی عدم استحکام ہے تو سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوتا ہے ،اگر افغانستان دہشتگرد تنظیموں کا مرکز بنتا ہے تو اس کے پاکستان پر اثرات آتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا افغانستان کے ساتھ گہرا سٹریٹجک تعلق ہے اور اس کے معیشت ،سیاسی ،سماجی اور معاشی تعلق پر اثرات آتے ہیں، ہم افغانستان کی صورتحال پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ اس وقت افغانستان کے اندر سیاسی حکومت نہیں اور ایک خلا ہے۔ ایسے میں انٹیلی جنس کے غیر روایتی روابط ہوتے ہیں جو بر قرار رہیں گے۔ اگر پاکستان کے وزیر خارجہ وہاں جائیں گے تو کس سے ملاقات کریں گے؟