وزیراعلی پنجاب کے سرپرائز وزٹ
وزیراعلی پنجاب کے سرپرائز وزٹ
تحریر: سلمان احمد قریشی
نگران وزیر اعلی پنجاب سید محسن نقوی روایتی سیاستدان نہیں جو میڈیا میں ستائش اور شو بازی کا راستہ اپناتے،انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق بہتری کے لیے فیلڈ میں موجود رہنے کا طرز عمل اختیار کیا۔یہ فیصلہ اور سوچ درست ہے لیکن انکا واسطہ پنجاب کی بیوروکریسی سے پڑا جو بہت بہتر جانتی ہے کہ معاملات کو کیسے چلانا ہے۔مقامی طور پر سب کچھ بہتر انداز میں پیش کرنے میں بیوروکریسی کو کمال حاصل ہے۔تمام انتظامات کچھ اس انداز سے کیے جاتے ہیں کہ سب کچھ بہتر لگتا ہے۔سرپرائز وزٹ ایک وقتی حل ہوسکتا ہے، مگرعوامی مسائل روزانہ کی بنیاد پر اجاگر ہوتے رہیں تو انکا حل بھی ممکن ہے لیکن مقامی صحافی اس کردار کو ادا کرنے پر مکمل تیار نہیں۔ اسکی سب سے بڑی وجہ ڈی سی اور ڈی پی او کے ساتھ تعلقات کی خواہش ہے۔ ان تعلقات کو استوار کرنے میں سب سے پہلے عوامی مسائل اور شکایات ہی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔
یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے بیوروکریسی کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ مخصوص میڈیا پرسنز کی سوشل میڈیا پر ڈی سی اور ڈی پی او سے خوشگوار ملاقات کی تصاویر اور روزانہ کی بنیاد پر یادگار لمحات کو کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ کرنے کے جتن سے عوامی مسائل پس منظر میں رہ جاتے ہیں۔انتظامیہ کی ایسی کوریج کی خبروں کو دیکھ اور پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ پاکستان ایک حقیقی فلاحی ریاست ہے۔تمام سرکاری امور بہترین انداز میں انجام دیے جارہے ہیں۔محکمہ تعلقات عامہ کیا آگاہی فراہم کرے گی جومخصوص میڈیا پرسن قربت کے چکر میں فراہم کررہے ہیں۔نگران وزیر اعلی پنجاب محسن رضا نقوی رات گئے سرپرائز دورے پر اچانک اوکاڑہ پہنچ گئے، انہوں نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اوکاڑہ کا تفصیلی دورہ کیا۔نگران وزیر اعلی نے ایمرجنسی، سرجیکل، کارڈیک، میڈیکل، لیب، ٹراما سنٹر اور ڈائلسز سنٹر کا معائنہ کیا، انہوں نے بچہ وارڈ، سی ٹی سکین اور دیگر شعبوں کا بھی جائزہ لیا، محسن رضا نقوی نے مریضوں کی عیادت کی اور علاج معالجے کی سہولتوں کے بارے استفسار کیا۔مریضوں اور تیمارداروں نے مجموعی طور پر مفت ادویات اور مفت ٹیسٹ کی سہولت پر اطمینان کا اظہار کیا، بعض نے ادویات باہر سے منگوانے اور ٹیسٹ باہر سے کرانے کی شکایات کیں۔اب اس خبر کے مطابق ہسپتال میں سب کچھ بہتر تھا مریضوں کو کوئی شکایت نہ تھی۔ اس بات پر یقین کرنے کے ساتھ ہمیں یہ احساس ہوا کہ اوکاڑہ کا ہیلتھ سسٹم ناروے، سویڈن جیسے ممالک کے معیار کے مطابق ہوچکا ہے۔ نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے میڈیا سے بھی بات کی۔ ڈی سی اوکاڑہ کی بیک پر فوٹیج اور تصاویر میں وہ میڈیا پرسن نمایاں ہیں جو اعلانیہ اور عملا” خود کو ڈی سی کی ٹیم قرار دیتے ہیں۔یہ مخصوص چہرے جو روزانہ ڈی سی کی زیارت کوصحافت کی معراج سمجھتے ہیں۔نگران وزیراعلی محسن نقوی ہسپتال کے بعد تھانہ صدر اوکاڑہ گئے یہاں بھی سب کچھ بہترین تھا۔ تھانہ صدر اوکاڑہ ایسا تھانہ جہاں ڈکیتی کی وارداتیں روزانہ کا معمول ہے۔شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں۔لیکن سب کچھ بہت بہتر انداز میں پیش کیا گیا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ضلع اوکاڑہ کا شمار ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں سرکاری افسران تعینات ہونا اور کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں مقامی میڈیا کا رویہ بہت زیادہ دوستانہ ہے۔ کچھ مخصوص میڈیا پرسن تو اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کے یہ حاشیہ بردار ستائش پر مبنی سوالات سے بہترین منظر کشی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ضلعی انتظامیہ کیا عوامی نمائندوں کو بھی عوام کے سوالات سے پریشیان نہیں کرتے۔ ایسے ماحول میں نگران وزیر اعلی کے سرپرائز وزٹ کے کیا نتائج نکلنے تھے۔۔۔؟ یہ سوال صدر پریس کلب اوکاڑہ شیخ شہباز شاہین نے نگران وزیر اعلی کے سامنے اٹھایا وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان دوروں سے کیا ثمرات حاصل ہورہے ہیں۔نگار خانہ میں طوطی کی آواز کے مصداق جواب کیا آتا، ستائشی اور فرمائشی سوالات نے اس آواز کو دبا دیا۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔
اس سے قبل نگران وزیراعلی نے چلڈرن ہسپتال لاہور کا طویل وزٹ کیا۔وزیر اعلی محسن نقوی نے مختلف شعبوں کا معائنہ کرتے ہوئے حالات پر جو تبصرے کئے وہ خود پنجاب حکومت خصوصاً وزارت صحت کے خلاف” ایف آئی آر” ہے۔پنجاب حکومت کے عبوری سربراہ نے چلڈرن ہسپتال کے سربراہ کو آخری وارننگ دیکر معالات درست کرنے کی ہدایت کیس۔ یہ تو چلڈرن ہسپتال کی صورت حال تھی وزیراعلیٰ جب سروسز ہسپتال پہنچے تو یہاں کے حالات بھی چلڈرن ہسپتال سے سو فیصد مطابقت رکھتے تھے۔
اسی طرح ایک صبح وزیراعلیٰ سرپرائز وزٹ پر راولپنڈی کے قدیم ہسپتال ہولی فیملی پہنچے راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد عمر اور دیگر حکام بھی وزیراعلی کو بریفنگ دینے کے لیے پہنچ گئے۔ ہولی فیملی میں وزیراعلی نے ایمرجنسی’ او پی ڈی اور بیڈز کی حالت پر بار بار اظہار افسوس کیا۔ کئی بیڈ شیٹس خون میں لپٹی ہوئی تھیں۔ صفائی کا ناقابل بیان نظارہ تھا۔ کئی وارڈز بدبو سے بھرپور تھے مریضوں کی شکایات اس سے علاوہ تھیں! اس بار وزیراعلیٰ محسن نقوی نے ہولی فیملی میں مریضوں کے باتھ رومز کی حالت زار بھی دیکھی۔ باتھ رومز کی طرف صرف ایک نظر نہیں ڈالی بلکہ محسن نقوی دیر تک باتھ رومز کی بدبو اور حالت پر کف افسوس ملتے رہے۔نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی نے گوجرانوالہ میڈیکل کالج اینڈ ٹیچنگ ہسپتال کا سرپرائز دورہ بھی کیا، زیر علاج مریضوں کی عیادت کی اور طبی سہولیات بارے دریافت کیا اور ہسپتال میں زیرتعمیر برن یونٹ کو فوری طور پر آپریشنل کرنے کی ہدایت کر دی۔ بعد ازاں محسن نقوی گجرات گئے اور وہاں عزیز بھٹی شہید ہاسپٹل میں بدنظمی اور سنگین نوعیت کی انتظامی غفلتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو عہدہ سے ہٹا دیا۔سیالکوٹ کا وزٹ کچھ یوں رپورٹ ہوا کہ وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے سیالکوٹ میں اقبال میموریل ٹیچنگ ہاسپٹل کے سرپرائز وزٹ کے دوران خاتون کی شکایت پر موقع پر تحقیقات کروائیں اور چوری میں ملوث پولیس اہلکار اور سیکیورٹی گارڈ کو ہتھکڑیاں لگوا دیں۔وزیراعلی پنجاب نے خاتون کی شکایت پر آئی جی پنجاب کو فوری انکوائری کا حکم دے دیا، ہسپتال آئی خاتون سے پرائیوٹ گارڈ اور پولیس اہلکار نے پیسے چوری کر لئے تھے۔پولیس اہلکار اور پرائیوٹ گارڈ کو گرفتار کر لیا گیا۔
ان مختلف ہسپتالوں کے دوروں کا احوال اور اوکاڑہ میں بہترین حالات پر اب مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔اوکاڑہ دورہ کے بعد ڈی سی اور ڈی پی او ایک تقریب کا انعقاد کریں گے جس میں میڈیا پرسنز کو شیلڈ دینے کا اہتمام ہوگا اور اسی طرح میڈیا پرسنز بھی تقریب منعقد کرتے ہوئے ڈی سی، اے سی، ڈی پی او اور ایم ایس کو تعریفی شیلڈ سے نوازیں گے۔ یہ اوکاڑہ کی روایت ہے اور ایسی ستائشی فرمائشی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔میڈیا پرسنز کو تمغہ صحافت مل جاتا ہے اور انتظامیہ کی کارکردگی کے چرچے ہر سو، عام آدمی کا کیا ہے یہ تکالیف اور شکایات رپورٹ ہونگی تو انکا ازالہ ہوسکے گا۔ یہاں ایسے ہی چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔ نگران وزیراعلی جو خود میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہیں تمام تر کوششوں کے باوجود بے خبر اور غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ انکے سرپرائز وزٹ بیوروکریسی کے لیے وقتی آزمائش تو ہوسکتے ہیں لیکن کوئی بڑا چیلنج نہیں جہاں جہاں اوکاڑہ جیسا ماحول میسر ہے۔اوکاڑہ وزٹ نے شہریوں کو انگشت بدنداں کردیا۔اب خورسندہ لوگ کس سے شکوہ کریں۔۔۔؟ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں، اس لیے حقائق بیان کرنے کا فریضہ انجام دینا ضروری سمجھتے ہیں۔