دھونس،دھاندلی اور عوام
ماضی میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیبی مدد سے ناکام ہونے پر وزیراعظم عمران خان بغلیں بجاتے رہے محض اس بات پر کہ اپوزیشن کو واضح اکثریت کے باوجود خفت اٹھانا پڑی اس وقت وزیر اعظم نے اوپن بیلٹ پیپرز سے چناؤ ہر توجہ نہ دی،جوں ہی سینیٹ انتخابات کا وقت قریب آتا گیا وزیر اعظم صاحب کا یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا کہ شو آف ہینڈ سے انتخاب کروائے جائیں کیونکہ وزیر اعظم کو یقین تھا کہ 2018 کی طرح اس بار بھی تحریک انصاف کے لوگ بک سکتے ہیں،صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا یوں سینیٹ انتخابات میں حکومت نے اسمبلیوں میں نمائندگی کے تناسب سے بھی کچھ نشستیں زیادہ حاصل کیں جس کا دعویٰ بھی حکمران جماعت کر رہی ہے دوسری طرف اسلام آباد سے سیٹ ہارنے کے بعد واویلا بھی کر رہی کہ خفیہ رائے دہی کے دوران ووٹ خریدے گئے ہیں۔
میرے چند سوالات ہیں کہ اسلام آباد کی ہی خاتون نشست پر حکمران جماعت کو مکمل ووٹ کیسے مل گئے ؟
کیا حفیظ شیخ کی اپنی شخصیت اظہار ناپسندیدگی نہیں ہو سکتا ؟
کیا ڈسکہ الیکشن میں جو ایکشن ہوا اس پر وزیراعظم کیوں خاموش رہے ؟
ہر سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان ہی کیوں فروخت ہوتے ہیں ؟
وزیر اعظم صاحب نے ڈپریشن کے دوران کل قوم سے خطاب کیا جہاں وہی پرانی باتیں دوہرائیں وہاں الیکشن کمیشن کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔
ایک سپورٹس مین ہونے کے باوجود وزیر اعظم صاحب کے اندر شکست تسلیم کرنے اور اپنے خلاف فیصلہ آنے کو وہ ہرگز برداشت نہیں کرتے۔حفیظ شیخ کے ہارنے کے بعد بھونچال آ گیا کہ ایک ہی دن وزیر اعظم صاحب نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی اور ایک دن کے وقفے کے بعد اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کروا لیا شاید ان ملاقاتوں سے وہ اپنے ناراض ایم این ایز کو پیغام دینا چاہتے تھے اور غالباً کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب کو بھی علم ہے کہ جن لوگوں نے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں ڈالا ان کی پی ڈی ایم سے ڈیل طے پائی تھی کہ آئندہ انتخابات میں ان کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا جائے گا کیونکہ ارکان پارلیمنٹ اپنے حلقہ کے عوام کا سامنا نہیں کر پا رہے حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی حکومت کو ہر محاذ پر شکست کے بعد ان پارلیمنٹیرینز کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
وزیر اعظم صاحب کی تقریر کی خاص بات یہ تھی کہ اختتام پر انہوں نے سیاسی اور مقتدر حلقوں کو پیغام دیا کہ میں نوجوانوں کو لے کر نکلوں گا اور بتاؤں گا تحریک کیا ہوتی ہے۔بھلے وزیر اعظم صاحب سے کوئی پوچھے کہ مہنگائی کے ٹائی ٹینک پر سوار عوام کو کیا لگے کہ سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ سے ہوں یا اوپن سے ان سے تو آپ نے سنہرے خواب دکھا کر نوالہ بھی چھین لیا ہے اب نوجوانوں کو کرپشن کے خلاف نکالنے کی بات کا جواب تو باشعور پاکستانی نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریوں کا جو جھانسہ دے کر اب آپ فرماتے ہیں کہ نوکریاں نہیں ہیں اور کرپٹ عناصر آپ کے صف میں شامل ہو جائیں تو نیک ہو جائیں اور ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو اور تمام توانائیاں اپوزیشن کے خلاف صرف کریں تو عوام یہ دھونس اب نہیں چلنے دے گی۔آپ نے جو خوبصورت ڈلیور کیا ہے آپ عوام میں جا کر تو دیکھیں کہ وہ کیا ردعمل دیتی ہے۔تقریروں سے ایک بار عوام آپ کے دھوکے میں آگئی ہے ہربار نہیں آئے گی۔
ماضی میں آپ کی کہی ایک ایک بات کی بازگشت عوام کو سنائی دے رہی ہے جس پر دو فیصد بھی عمل نہ ہوا۔میری رائے تو یہ ہے وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے عوام کے پاس جائیں پھر وہی پرانی تقریریں کریں عوام آپ کو خود جواب دے کر آپ کی غلط فہمی دور کر دے گی۔۔۔۔۔۔۔