سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کرلی
سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ وکیل احسن عرفان نے عدالت کو بتایا کہ صدر، سینیٹ اور اسمبلی ایک ستون کے 3 حصے ہیں، کیسے ممکن ہے ستون کا ایک حصہ آئینی ہو اور باقی دو نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کے اطلاق سے متعلق کوئی عدالتی فیصلہ نہیں۔ اس پر وکیل احسن عرفان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں صرف انتخابات کا طریقہ کار درج ہے۔
وکیل احسن عرفان نے عدالت کو بتایا کہ کہیں نہیں لکھا سینیٹ الیکشن قانون کے تحت ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ کس کو دینا ہے تعین سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ اس پر وکیل احسن عرفان نے کہا کہ قانون میں کہیں نہیں لکھا کے پارٹی کے فیصلے کے مطابق ووٹ دیا جائے، پارٹی سربراہ بھی ووٹرز پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کا کردار دنیا بھر میں بہت اہم ہے، ڈسپلن نہیں رکھنا تو سیاسی جماعتیں بنانے کا کیا فائدہ ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل خرم چغتائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو عدالت سے رائے مانگنے کا اختیار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں ریفرنس صدر پاکستان نے بھیجا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیا ہم صدر کو بلا کر پوچھیں کہ انہیں سوال کیوں عوامی اہمیت کا لگا ؟ وکیل خرم چغتائی نے کہا اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کے وکیل ہوتے ہیں صدر کے نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قومی اسمبلی کے لیے ووٹنگ کا لفظ استعمال ہوا، سینیٹ ووٹنگ کے لیے پول کا لفظ استعمال ہوا، ووٹنگ اور پول کے لفظ میں فرق کیا ہے ؟ اٹارنی جنرل نے کہا سینیٹ کا الیکشن آئین کے تحت نہیں ہے، سینیٹ کا الیکشن آئین کے مطابق ہونے سے آئین کے دیگر آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہوگی۔