وقت بدلنے والوں کو تو بات میں رہنا پڑتا ہے. تحریر:سلمان احمد قریشی
“وقت بدلنے والوں کو تو بات میں رہنا پڑتا ہے”
تحریر:سلمان احمد قریشی
ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی امنگوں کے عین مطابق روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا۔عام آدمی کی ضروریات کو اپنی سیاست کا موضوع بنایا۔ عوام نے بھی اس طرز سیاست کو خوب پذیرائی بخشی۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں بھٹو سے جہاں تک ممکن ہوا اس نعرہ پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔یہی وجہ ہے آج بھی پاکستان کی سیاست میں بھٹوموجودہے۔ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ عوامی مسائل تاحال حل طلب ہیں۔ وعدے اور نعرے صرف انتخابی سیاست میں موثر ہیں۔عملی طور پر میدان سیاست میں منشور سے زیادہ اہم نعرے ہی رہے۔منشور ایک مکمل پارٹی پروگرام ہوتا ہے اسکے مطالعہ اور اس پر عملدرآمد کے میزان پر پارٹیوں کی کارکردگی کو جانچہ نہیں جاتا۔دلکش اور دلفریب نعرے ہی وطن عزیز میں توجہ کے مرکز رہتے ہیں۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی تبدیلی کے نعرہ پر برسراقتدار آئے۔انہوں نے بھی اقتدار میں آنے سے قبل 50لاکھ گھر اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے ایک کروڑ نئے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کیا۔ نوجوان طبقہ کو پورا یقین تھا کہ عمران خان انقلابی تبدیلیاں لائیں گے۔ تبدیلی سرکار کے اقتدار کی آدھی مدت تقریبا پوری ہوئی مگر وعدے تاحال پورے نہیں ہوئے۔ آنکھوں میں آج بھی خواب ہیں۔ بہتر مستقبل کے، روزگار کے اور اپنی چھت کے سب وعدے عمران خان سے منسلک ہیں۔
حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں اضطراب کا بڑھنا فطری امر ہے۔ امید کی کرن عمران خان کی شخصیت اور سیاست مسائل کے بادلوں میں گم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ نیا پاکستان ہاوسنگ سیکم کے تحت مناسب قیمت پر آسان اقساط میں گھروں کی فراہمی شہباز شریف کے آشیانہ ہاوسنگ سکیم کی طرح افسانہ معلوم ہوتی ہے۔
ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
تمام مسائل اور مشکلات کو سابقہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈال کر مدت اقتدار تو پوری کی جاسکتی ہے آئندہ کے سیاسی منظر نامہ میں موجود رہنے کے لیے کارکردگی دکھانا ہوگی۔ تبدیلی سرکار ابھی تک تو الزامات کے سہارے تمام معاملات چلارہی ہے۔ حاکم وقت مصلحتوں اور مجبوریوں کا لبادہ اوڑھ سکتے ہیں مگر صحافی خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔اس کا کام ہے بولنا اور لکھنا کھل کر لکھنا اور بولنا۔صحافت اور حکومت لازم و ملزوم ہیں۔حکومت اپنا کام مکمل طور پر انجام نہیں دے سکتی جب تک صحافت کو قبول نہیں کرتی۔حکومت کے بہتر کاموں کی تشہیر اور ناکامیوں کا تذکرہ صحافت کا تقاضہ ہے ۔اسی فرض منصبی کی ادائیگی کی وجہ سے صحافی کو تنقیدو توصیف سے نوازا جاتاہے۔
الحمدللہ راقم الحروف کو 27سالہ صحافتی زندگی میں عزت بھی ملی اور رزق حلال بھی میسر ہے۔ مگر عام پاکستانی کی طرح ایک آشیاں کی خواہش تاحال دل میں موجود ہے۔ تین عشروں سے حکومتیں تواتر سے تبدیل ہورہی ہیں۔ صحافی کالونی کے قیام کے حوالے سے صرف سنتے آرہے ہیں۔ پریس کلب سمیت درجنوں صحافتی تنظیموں کو ہمیشہ صحافی کالونی کے قیام کے لیے پر عزم دیکھا۔ صدر اوکاڑہ پریس کلب کامریڈ عبدالسلام مرحوم سے لیکر آج تک صحافی برادری صحافی کالونی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔صاحب اختیار سرکاری و سیاسی شخصیات جب بھی پریس کلب آئے یا الیکشن کا وقت آیا صحافیوں کے رہائشی مسائل سمیت دیگر معاملات پر خواب ضرور دکھائے گئے۔ صحافیوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کے لیے غیروں کے علاوہ اپنوں کا کردار بھی قابل افسوس ہے۔ چوہدراہٹ کی خواہش اور ذاتی مفادات نے اجتماعی فائدے کے لیے موثر کوششیں ثمر آور ہونے ہی نہیں دیں۔ اگرچہ چندساتھیوں نے پلاٹ حاصل بھی کیےمگر صحافی کالونی آج بھی ایک خواب ہے۔
قارئین کرام! آشیانے کی خواہش راقم الحروف کے دل میں ہے۔ اور عام پاکستانی بھی حکومت سے امید رکھتا ہے روٹی ، کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا ہوگا۔
سندھ حکومت نے اس سلسلہ میں رواں ماہ صوبے بھر میں غریب محنت کشوں کو اپنے مفت گھروں کی فراہمی کے منصوبہ کے تحت سکھر میں 1024محنت کشوں کو مالکانہ حقوق دیے۔ اس سے قبل بھی صوبہ بھر میں سندھ ورکرویلفیر بورڈ کے ذریعے 57لیبر کالونیوں میں 11565فلیٹس 6257مکانات اور 5443پلاٹ فراہم کئے ہیں۔اب روزگار کے حوالہ سے 20ہزار سے زائد شہریوں کو روزگار کی فراہمی کے194ایکڑ پرمشتمل 94انڈسڑیل یونٹس کے منصوبے لاڑکانہ انڈسڑیل اسٹیٹ کا افتتاح بھی کردیا گیا۔ یہی حکومت کی ذمہ داری ہے جس کو پورا کرنے کے لیے سندھ سرکار نے عملی کام کیا۔ یہ طرز سیاست قابل ستائش ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت این آراو نہ دینے کے اعلانات کرکے وقت گزار رہی ہے۔ تبدیلی سرکار سے اپیل ہی کی جاسکتی ہے کہ الزامات اور تنقید کی سیاست ترک کردیں صرف گڈ گورنس پر توجہ مرکوز رکھے۔ ملک کو بہتری کی طرف لے جائیں۔پانچ سال تک ایسے ہی سیاست ہوتی رہی تو ملک آگے کیسے بڑھے گا۔۔۔؟ مناسب ہوگا سابقہ حکومتوں کے بارے اظہار خیال کی بجائے اپنی کارکردگی کو زیر بحث لائیں۔ مہنگائی کے طوفان کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سب سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کا نتیجہ ہے۔ بدانتظامی اور گڈ گورنس کے فقدان کی وجہ سے آٹا چینی کے نرخوں میں اضافہ ہوا۔ ذخیرہ اندوزی اب بھی جاری ہے۔ سندھ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی ، علی زیدی اور وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے درمیان شکوہ شکایات یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ۔ بہتر ہوتا اگر وفاق اور سندھ حکومت مل کر آگے بڑھیں۔
وزیر اعظم عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں ۔ ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھروں کی تعمیر اس وعدے کا پورا ہونا لازم ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عمران خان اپنی ضد چھوڑ کر ملک کی بہتری کے لیے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں ۔ عوام کی خدمت کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان ۔۔۔ وزیراعظم عمران خان یاد رکھیں بھٹو اسی لیے سیاست میں زندہ ہے اس نے عام آدمی کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کیں۔ اللہ تعالی نے آپکو موقعہ دیا ہے آپ بھی عوامی خدمت کے ذریعے خود کو سیاست میں زندہ رکھ سکتے ہیں ۔معروف شاعر
فضل احمد خسرو نے کیا خوب کہا ہے۔
وقت کے ساتھ بدلنے والے بات بدلتے رہتے ہیں
وقت بدلنے والوں کو تو بات میں رہنا پڑتا ہے
There are several facets of online essays on the https://www.laweekly.com/the-9-best-essay-writing-services-available-online-top-essay-writers-in-2021-reviews/ internet that need to be known before you start your job.