
حقیقی آزادی مارچ
تحریر
شاہدرشید
قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت سے آزاد ملک پاکستان 14 آگست 1947کو وجود میں آیا عمران خان نیا پاکستان تو بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے اب ملک کو آزاد کرنے کے لیے آزادی مارچ کی طرف جا رہے ہیں وہ نئی حکومت کو امپورٹڈ حکومت کا نام دے کر انکے خلاف آزادی مارچ کرنے جارہے ہیں اور آزادی مارچ کے لیے 20 لاکھ لوگ اسلام آباد میں اکھٹا کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ دراصل اس مارچ کو حقیقی آزادی کا نام دے رہے ہیں عمران خان نے کہا کہ جب میں آپ کو اسلام آباد کال دوں گا تو آپ سب نے پاکستان کو حقیقی آزادی دلوانے کے لیے مارچ میں شرکت کرنی ہے۔لانگ مارچ اور دھرنوں سے نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں، نہ ہی بنائی، اور نہ ہی اِن کے ذریعے الیکشن کروائے جا سکتے ہیں۔ تو ’حقیقی آزادی‘ کی الیکشن کروانے کی بظاہر منزل تو ابھی سے دور ہی نظر آتی ہے لانگ مارچ میں عمران خان کے ساتھ کتنے لوگ اسلام آباد پہنچیں گے اور کتنے دھرنا دے کر کتنے عرصے کے لیے بیٹھ پائیں گے، اس کا حتمی یقین خود جماعت کے اندر بھی موجود نہیں۔عمران خان کا خیال ہے کہ وہ 20 لاکھ یا اس کے قریب قریب لوگ اسلام آباد لے آئیں تو شہرِ اقتدار اور حکومت کو مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ پنڈی کو بھی کوئی فیصلہ لینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ لیکن 20 لاکھ لوگ لانگ مارچ کے لیے اکٹھے کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ دھرنے کے لیے 50 ہزار لوگ بھی اکٹھے کرنا محال ہو سکتا ہے۔ کیا عمران خان خود بھی دن رات دھرنے کے اندر ہی موجود رہیں گے اور اپنا اوڑھنا بچھونا سونا کھانا پینا سب دھرنے کے مقام پر ہی محدود رکھیں گے؟ اس کا جواب بھی 2014 کے دھرنے سے بخوبی حاصل کیا جا سکتا ہے جہاں صرف رات کے اوقات میں تقاریر کی حد تک ہی ڈی چوک کو رونق ملتی رہی اور دن کے اُجالے میں پی ٹی آئی کیمپس ویران اُجاڑ پڑے نظر آتے تھے۔اب دیکھیے یہ آزادی مارچ کیا رنگ دکھاتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا میرے خیال سے عمران خان کے لیے اس سے بہتر آپشن اور کوئی موجود نہیں کہ وہ گذشتہ ساڑھے تین سال کی غلطیوں کا اِزالہ کریں، ’معاملات‘ کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں اور اگر واقعی مستقبل قریب میں اپنا وزارتِ عظمیٰ کا کَم بیک چاہتے ہیں تو جارحیت کو بریک لگائیں اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اعتماد سازی کے اقدامات پر اولین اور مکمل توجہ دیں