
بد کلامی اور سیاسی عدم برداشت
بدکلامی اور سیاسی عدم برداشت
تحریر
شاہدرشید
سوشل میڈیا پر ہر طرف گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت والی ٹوٹئیٹ پر دوسری طرف سےگالم گلوچ شروع ہو جاتی ہے۔لوگوں کے اندر ایک نئی سوچ پیدا ہوئی ہے جس میں حق اور سچ کے نام پر دوسرے کو سنے بغیر فیصلہ کن اندازمیں ایک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔عمران خان نے حق اور باطل کی بات کرتے ہوئے ایک واضح تقسیم پیدا کر دی ہے جو ایک نیا سیاسی فرقہ بنتا جارہا ہے۔اس سے معاشرے میں ہیجان برپا ہورہا ہے، عمران خان نے اس کلچر کو فروغ دیا ہے۔موجودہ دور میں اس کلچر کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں کہ آوازیں کسنے اور برابھلا کہنے کا نیا رواج شروع ہوچکا ہے شیخ رشید احمد سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائیاں اب گلی محلوں تک پہنچ گئی ہیں۔اگرچہ اختلاف معاشرے کا حسن ہے لیکن اس پر یقین کرنے اور اپنی بات کے علاوہ دوسرے کی کسی بات کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا نفرت کی سیاست ختم،محبت کی فضا قائم کی جائے اس صورتِ حال میں رواداری ہی ایک ایسا رویہ ہے جس سے باہمی نفرت کی آگ کو بھسم کیا جا سکتا ہے اور ایک دوسرے کو برداشت کر کے معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے یہ جماعتی اختلافات تمام حدود و قیود کو عبور کر کے ذاتی دشمنی میں بدلے جا چکے ہیں ان جماعتوں کے جوشیلے کارکنوں کے درمیان میں بھی دشمنی کی فضا پروان چڑھتی جا رہی ہے میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی اسکا ایک بھائی پی ٹی آئی کا سپورٹر ہے اور یہ نون لیگ کا سپورٹر ہے اسکا کہنا ہے اسکی آج تک میرے ساتھ لڑائی نہیں ہوئی اب آئے روز لڑائی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ہاتھا پائی تک نوبت آ چکی ہے اب ایک دوسرے کے گھر آنا جانا کم ہو گیا ہے میری سب جماعتوں کے سپورٹرز سے گزارش ہے خدایا جماعتوں کو سپورٹ ضرور کریں رشتوں کی قدر کریں یہ رشتے آپکی پسندیدہ جماعتوں سے زیادہ انمول اور قیمتی ہیں انکو ٹوٹنے سے بچائے اپنی پسندیدہ جماعتوں کی خاطر انہیں ضائع نہ ہونے دیں