• ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کا ایس جے آئی ٹی بنانے کا حکم

    [t4b-ticker]

  • جمہوری استحکام، پاک فوج اور پاکستان

    تحریر :سلمان احمد قریشی

    عمران خان کی حکومت کا خاتمہ مکمل طور پر آئینی عمل تھا۔اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں نمبر گیم مکمل کر کے حکومت کو رخصت کیا۔پی ٹی آئی نے حکومتی نا اہلی اور ناکامی پر اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کی پرانی روایت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی۔ ماضی میں میاں نواز شریف اور انکی جماعت بھی ”مجھے کیوں نکالا “ کا نعرہ لگا کر اداروں پر حملہ آور رہی۔
    آج سیاسی عدم برداشت کا رویہ سیاسی تفریق سے دلوں میں تفریق تک پہنچ چکا ہے۔ سیاست دان اداروں کو ملوث کر کے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں۔
    پنچاب اسمبلی میں جمہوری اور سیاسی روایات کو جس طرح پامال کیا گیا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔آئین اور قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ساتھ یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری اور اسپیکر پرویز الہی پر تشدد پارلیمانی تاریخ کا بد ترین واقعہ ہے۔ ایوان میں ممبران کا باہم دست و گریباں ہونا اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ عوامی نمائندے لیڈر شپ کی خوشنودی کو آئین پر فوقیت دیتے ہیں۔
    ہماری سیاست میں اقتدار پرستی اخلاقیات کی مکمل نفی کرتی نظر آتی ہے۔حمزہ شہباز پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر منتخب منحرف ایم پی ایز کے ووٹ سے کامیاب ہوئے۔حمزہ شہباز کی بطور وزیراعلی کامیابی راقم الحروف سمیت جمہوریت پر یقین رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے باعث مسرت نہیں ہو سکتی۔
    پی ڈی ایم اور پی پی پی نے مل کر تبدیلی سرکار کو چلتا کیا۔ حالیہ سیاسی محاذ آرائی سے جہاں جمہوریت پر یقین رکھنے والے اذہان منتشر ہوئے اسکے ساتھ قومی اداروں کی بے توقیری بھی کی گئی۔پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے خاتمہ پر غیر ملکی مداخلت کا بیانیہ کچھ اس انداز سے اپنایا کہ ملکی اداروں پر بھی انگلیاں اٹھانے کی مذموم کوششیں کی گئیں۔
    پی ٹی آئی کے ذمہ داران نے اپنے غیر سیاسی رویے اور بیڈ گورننس کو ایک طرف رکھتے ہوِئے اپنی سیاسی شکست سے آئندہ الیکشن تک جانے کے لیے سامراج مخالف کردار اپنایا۔
    ماضی میں جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں نا اہل ہوئے اور حکومت ختم ہوئی۔ وہ سڑکوں پر یہ کہتے نظر آئے” مجھے کیوں نکالا”۔۔۔۔۔؟ اس بار حکومت سے ہاتھ دھونے والے عمران خان اپنے نکالے جانے کی وجوہات بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ نوازشریف یہ پوچھتے تھے مجھے کیوں نکالا ، عمران خان یہ بتاتے ہیں مجھے کیوں ہٹایا۔
    سیاست دونوں سیاسی رہنماوں کا حق ہے لیکن ستم ظریفی ملکی اداروں پر براہ راست تنقید کی گئی۔سیاسی جماعتیں گلی محلہ کی سطح تک اپنے ہمدرد رکھتی ہیں۔ سیاسی بیانیے جلد مقبول ہو جاتے ہیں۔ ادارے اپنی آئینی حدود کے پابند ہیں کسی بھی طرح کی تنقید کا جواب دینے کے لیے انکے پاس کارکنان نہیں ہوتے۔ اداروں کے محافظ عام عوام ہیں۔جمہوریت کا بھی تقاضہ ہے اداروں کا مکمل احترام کیا جائے۔
    سیاست، سیاسی رہنماوں کا حق ہے مگر اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کی مذموم کوششیں قابلِ مذمت ہیں۔ وائے افسوس ملکی اداروں پر براہ راست تنقید کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔گمراہ پراپیگنڈا سہل ہے ۔اس سے سیاسی کارکن جلد متاثر ہوتے ہیں۔
    اس لیے سیاسی قیادت کو محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ایسے رویےکی مکمل حوصلہ شکنی ضروری ہے کیونکہ ان رویوں سے ادارے اور ریاست دونوں کمزور ہوتے ہیں۔
    پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے راولپنڈی میں
    ایک سوال کے جواب میں عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست کی کہ’فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں‘ اور ‘ہمیں اس بحث سے باہر رکھیں۔’
    انھوں نے کہا کہ خفیہ ادارے دن رات سازشوں کے خلاف کام کر رہے ہیں ’اور اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو انشااللّٰہ اس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘۔انہوں نے عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست کی کہ ‘ہمیں سیاسی بحث سے باہر رکھیں۔
    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ’آئین کی بالادستی اور رول آف لا ٕ کو یقینی بنانے پر سب نے اتفاق کیا ہے۔ اور جمہوریت میں سب اداروں کا آئین کے دائرے میں کام کرنا بھی بہترین مفاد میں ہے۔انھوں نے واضح کیا کہ ‘آرمی چیف جنرل باجوہ نے پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی قائدین سے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
    ان کے مطابق جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ ‘میں کبھی کسی سے ملنے نہیں گیا تو مجھ سے کیوں بار بار ملنے آتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا
    ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘بے بنیاد کردار کشی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ملکی مفاد کے خلاف ہے۔’
    قارئین کرام! ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں پاک فوج کی طرف سے واضح پیغام آ چکا ہے۔
    قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم افواہیں پھیلانے والے عناصر کا حصہ نہ بنیں، یہ سیاسی صفوں میں چھپے مفاد پرست جھوٹ پر مبنی تصاویر ویڈیوز پوسٹیں ہماری اندھی تقلید کا سہارا لیتے ھوئے، ہمارے ہی ذریعے سے معاشرے میں پھیلا رہے ہیں، جس کی وجہ سے پاک فوج ہی نہیں ریاست اور جمہوریت سب کچھ کمزور ہوتا ہے۔
    ہم افواج پاکستان کی غیر مشروط حمایت کرتے رہیں گے۔ کیونکہ پاک فوج ہے تو وطن سلامت ہے، اور وطن سلامت ہے تو سلامت ہم بھی ہیں۔
    آیئے عہد کریں، کہ حالات کی آندھی کو اپنے اوپر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے، اندرونی و بیرونی فسادیوں اور دشمنوں کے کسی بھی طرح کے وار سے متاثر نہیں ہوں گے، ایک متحد و منظم و ایماندار قوم بن کر دکھائیں گے اور موجودہ حالات میں پاک فوج کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔آئینِ پاکستان جمہوریت کا ضامن ہے جبکہ افواج پاکستان ملکی سلامتی کی محافظ ہے۔فوج پر تنقید کر کے ملکی مفاد میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا لہذا اس سے اجتناب نا گزیر ہے۔

    Advertisements
    114 مناظر