• ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کا ایس جے آئی ٹی بنانے کا حکم

    [t4b-ticker]

  • آئین کو ماننے والے جب تک ہیں، تنقید سے فرق نہیں پڑتا: چیف جسٹس

    چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئین کو ماننے والے جب تک ہیں، تنقید سے فرق نہیں پڑتا، عدالت کے دروازے ناقدین کیلئے بھی کھلے ہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قربانیاں دیں اور اداروں کے ساتھ کھڑی رہی، قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔

    ، صدارتی ریفرنس کے بعد آئینی عہدیداروں نے آئین کی خلاف ورزی کی ،آئین کیلئے کھڑے ہونے پر ہی اداروں کے خلاف مہم چلی، رضا ربانی کے دلائل، آئین کو ماننے والے جب تک ہیں ،تنقید سے فرق نہیں پڑتا،عدالت کے دروازے ناقدین کیلئے بھی کھلے ہیں،قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس

    سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت پیپلزپارٹی رہنمارضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لازمی نہیں کہ پارٹی سے وفا نہ کرنے والا بے ایمان ہو، کاغذات نامزدگی میں دیا گیا حلف پارٹی سے وابستگی کا ہوتا ہے، اصل حلف وہ ہے جو بطور رکن قومی اسمبلی اٹھایا جاتا ہے۔

    انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے ارکان کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہ دینے کا خوف دلاتا ہے، پاکستان میں چند دن پہلے وزیراعظم آئین کی سنگین خلاف ورزی کے لیے تیار تھا، لیکن استعفیٰ نہیں دیا، پارٹی سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا، آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف رکن ڈی سیٹ ہوتا ہے، نااہل نہیں، انحراف کی سزا رکنیت کا خاتمہ ہے مزید کچھ نہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے رضا ربانی سے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیکر آپ رو پڑے تھے، آپ نے تقریر میں کہا تھا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے، اگر مستعفی ہوجاتے تو کیا خیانت ہوتی؟ آپ نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا تھا۔ رضا ربانی نے کہا کہ استعفیٰ دینے کے بعد حالات کا سامنا نہیں کرسکتا تھا، استعفیٰ دینے کے لیے اخلاقی جرات نہیں تھی، استعفیٰ دینے کا مطلب سیاسی کیریئر کا خاتمہ ہے۔
    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاریخ بتاتی ہے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قربانیاں دیں اور اداروں کے ساتھ کھڑی رہی، قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔

    تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ریفرنس میں دو بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے تحت ملنے والی سزا اور دوسرا کیا منحرف رہنما کی نااہلی تاحیات ہو گی یا نہیں۔

    اٹارنی جنرل کے وکیل نے دلائل دیئے کہ 63 اے کیساتھ 62 ون ایف کو بھی پڑھا جائے گا، پارٹی ہدایت کیخلاف ووٹ دینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آئین کی خلاف ورزی کے کیا نتائج ہیں؟ کیا آئین کی ہر خلاف ورزی پر تاحیات نا اہلی ہے؟ کرپشن، رشوت کی بنا پر منحرف ہونا ثابت ہوجائے تو 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، وکیل منحرف ارکان کو ووٹ کی کوشش سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ووٹ کاسٹ ہوگا تب ہی چیئرمین کارروائی کرے گا۔

    علی ظفر نے دلائل دیئے کہ منحرف رکن آئین، عوام اور سیاسی جماعت سے بے وفائی کرتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ نہ دینے والا بھی تو پارٹی سے انحراف کرتا ہے، آپ کہہ رہے ہیں 63 اے ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت تو دیتا ہے گننے کی نہیں۔

    اٹارنی جنرل کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیئے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ ختم کرنا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 95 پرعملدرآمد کے بعد ہی 63 اے پرعمل شروع ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل مخدوم علی خان کو سنیں گے، عید کی چھٹیوں کے بعد بابر اعوان کو سنیں گے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق بھی عدالت کے سامنے اپنی گزارشات رکھےگا، ابھی تک کابینہ نے اس کیس پر غور نہیں کیا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو اب کابینہ کے سامنے نہ ہی رکھیں، کوئی نیا فیصلہ بھی ہوسکتا ہے۔

    سینیٹر رضا ربانی نے دلائل مکمل کرلیے جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے کیس کی سماعت جمعہ ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردی گئی ہے۔

    Advertisements
    87 مناظر