ایس ایچ او یا اکبر بادشاہ
تحریر چودھری شہباز آرائیں
موجودہ پنجاب پولیس کی بگڑتی صورتحال کو دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ ادارہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کا ذمہ دار ہے پولیس کا ادارہ آجکل نوابی کے اس عروج پر پہنچ چکا ہے کس سائلین ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی سائل تھانے کے اندر جانے کی جرات کرے تو مغلیہ دور کی لمبی چوڑی دیواریں تو سامنے نہیں البتہ شاہی خاندان کے نواب تھانوں میں موجود سائل کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دیتے ہیں اور دوبارہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ تھانے کا نام بھی اپنی زباں پر لے آج قائرین آپ کو ایک ایسے ایس ایچ او کی کہانی سناتے ہیں جناب اسد عباس بوکسر صاحب جو کئی بار ناقص کارکردگی پر شاید کلوز اور معطل ہوئے پر پھر بھی کوئی روحانی طاقت میرڈ کا گلہ گھونٹتے ہوئے ان کو دوبارہ ایس ایچ او لگاو دیتی ہے لیکن ایس ایچ او کی طرز گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو بھی بااثر اور کمال کی شخصیات ہے اکبربادشاہ جناب کے فون سے کال وہی اٹینڈ ہوتی ہے فون اسی کا ہی سنا جاتا ہے جو ان کے موبائل میں سیو نمبر ہو تھانے کے اندر جانے کے بھی ٹائم اوقات لکھ دیے گئے ہیں؟ جو سرکار ایس ایچ او نے ٹائم لکھے ہیں سائل تو کیا کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی پر کرائم ہے وہ روکتا ہی نہیں کارے خاص محرر ہی ایس ایچ او بنا پھرتا ہے جناب کے مزاج ہے نہ کال سننا نہ کال کرنا نہ ایس ایم ایس کا جواب دینا جو کرانا کرانا ہے وہ محرر اور کارے خاص نے کرنا ہے
دوسرے لفظوں میں ایس ایچ او فیکٹری ایریا نے اپنی مدد آپ کے تحت ایس او پیز ایسے سخت بنا لیے ہیں کہ ایس ایچ او سے ملنا تو درکنار اب تھانے کے اندر بھی سائل نہیں جا سکے گا تو آئیے اس اکبر بادشاہ کے علاقے کی صورتحال سے آپ کو آگاہ کرتے ہیں کرائم کا ریٹ دن بدن بڑھ رہا ہے چور ڈکیت راہزن ہر جرم کرنے والے کو کھلی چھٹی ہے ہر جرم کا ریٹ مقرر ہے علاقے کے لوگ ایسے غیر محفوظ ہیں جیسے ان کا کوئی پرسان حال نہیں اور ان لوگوں کا جینا دوبھر ایسا ہوا ہے جیسے پاکستان کے یہ شہری ہی نہیں بلکہ کسی اور ملک سے آئے ہوئے وہ مجرم ہوں جن کا قصور یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کوئی نیشنلٹی نہیں ہوتی بلکہ میں تو یوں کہوں گا فیکٹری ایریا کے ایس ایچ او اکبربادشاہ کے علاقے میں رہنے والے لوگ یہ مجرم ہیں اور جرم کرنے والے اکبربادشاہ کے قریبی لوگ ہیں؟
یا اعلی آفیسرز کو جعلی سب اچھے کی رپورٹ کیا عوام کو اس سب اچھا کی سزا بھگتنی پڑے گی اور جرم کرنے والے عیاشی کی زندگی گزار سکتے ہیں لیکن فیکٹری ایریا کے ایس ایچ او کو لگام ڈالنے کے لیے پولیس کا کوئی بھی اعلی آفیسر تیار نہیں سی سی پی او لاہور ڈی آئی جی آپریشن ایس پی کینٹ بھی اس بات سے بے خبر ہے یا جناب اکبر بادشاہ کے سورس اور تعلوقات کی واجہ سے خاموش کہ علاقے میں کیا ہو رہا ہے یا پھر فیکٹری ایریا کا علاقہ سی سی پی او لاہور ڈی آئی جی آپریشن کے زیر نگرانی آتا ہی نہیں اسی طرح جناب محترم آئی جی پنجاب سے بھی یہی مودبانہ گزارش کروں گا کہ آپ فیکٹری ایریا کا ایس ایچ او کیونکہ وہ اپنی وردی کے نشے میں غریب عوام پر ظلم و ستم کی داستان رقم کر رہا ہے اور آپ اعلی افسران ہوکر اس بات کا نوٹس نہیں لے رہے ایس ایچ او فیکٹری ایریا کی داستان اگر سامنے آنکھوں کے ہو تو انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے بکسر ایس ایچ او عوام پر اپنی بکسینگ آزمانے لگے جرم کرنے والا مجرم ہے یا پھر جس سے زیادتی ہوئی ہے وہ مجرم ہے لیکن عقل کہتی ہے مجرم وہی ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے کیونکہ جرم کرنے والے کو تو کوئی پوچھ ہی نہیں رہا اور جو تحفظ کا ایک دروازہ ہے داد رسی کی ایک جگہ ہے مظلوموں کہ سات انصاف کا ایک دروازہ ہے وہاں تو خواب خرگوش کے مزے لوٹے جا رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا جا رہا ہے کہ یہ نا انصاف کا دروازہ ہے نہ مظلوم کی دادرسی یہاں ہوتی ہے اور نہ ہی ہم عوام کے جان و مال کی تحفظ کرنے والے لوگ ہیں ہم سے تو وہی بات کرے جو عوام کو لوٹ کر آیا ہو تو آج ایک ایس ایچ او فیکٹری ایریا کی بات میں نے نہیں آپ کو بتائی بلکہ موجودہ دور میں اکثر اکبر بادشاہ کی کہانی سنا رہا تھا اگر کہیں پر ارباب اختیار کی آنکھ کھل جائے تو سب انسپکٹر اکبر بادشاہ کو عوام اور سائل داد راسی ڈیوٹی کو اچھا طریقے سے کرنے کی تلقین کی جاے تاکہ عوام اور پولیس کی بڑھتی خلش دور ہو سکے